میرا جسم میری مر ضی


 تیرا باپ بھی دے گا آزادی ! 


حیا ایک گوہر آبدار کسی سیپ میں چھپا موتی ۔۔۔حیا تو اللہ‎ کو بے حد پسند ہے یہ تو اللہ‎ اور نبیوں کی صفت ہے یہ گر اللہ‎ سے ہو تو معتبر ہو کر بندگی بن جاتی ہے، بندے سے ہو تو  اطاعت ہو کر عقیدت  بن جاتی ہے ۔کسی بھی عورت کو حیا سے زیادہ عزیز اور کیا ہو سکتا ہے!!  بعض اوقات تو دوسروں کے شرم ناک سلوک پر بھی عورت ہی حیا کر رہی ہوتی ہے شریف گھرانوں میں ہماری تربیت ہی کچھ ایسی کی جاتی ہے کے ہم زیادتی کے جواب میں بھی بس حیا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے یہ ہماری ازلی حیا ہی ہے کے بحثیت عورت مردوں کے  فحش جملوں اور حرکتوں کے جواب میں بھی  نظریں جھکا کر خاموشی سے گزر جاتے ہیں ۔اگر کوئی عورت آپ کی فحاش گوئی کے جواب میں آپ کی تذلیل نہیں کرتی بلکہ صبر کرتی ہے تو یقین کیجئے وہ اپنے حق میں آپ کے شر سے حفاظت کی پناہ اپنے رب سے ضرور مانگتی ہوگی کیونکہ اللہ‎ کے پاس کسی عورت کی کردار پر سوالیہ نشان "کیوں" نہیں ہوتا ۔

لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ جو خواتین و بچیاں اپنے گھروں نکل کر معاشرے کے تعلیمی و سماجی اداروں سے اپنے حصے کا کچھ رزق جمع کرتی ہیں وہ  ان جیسی آزادی مافیا عورتوں کی حرکتوں کے آگے  اتنا مجبور ہو جائیں گی کے  اپنے خوابوں کو اپنے ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دیں گی ۔

اگر آپ عزت والے مرد ہیں تو خدارا دوسروں کی عزت بھی مقدم رکھیں ۔یہ موصوف جو فخر سے کنواری کنیا کو لپٹائے کھڑے ہیں کیا اپنی بہن ، بیٹی کو اس طرح کسی غیر مرد کے ساتھ بھرے مجمع میں بغل گیر دیکھ سکتے ہیں ؟؟ 

اگر آپ واقعی مرد ہیں تو عورت کے سر پر ہاتھ رکھیں اس کے جسم پر نظر مت رکھیں اسے بھرے مجمع میں تماشہ  نہ بنائیں عزت سے نکاح کریں ۔

ساتھ ہی  بنت حوا کا نعرہ لگانے والی عورت کو حوا کی عصمت کا بھی کچھ پاس ہونا چاہیے ساری زمہ داری مرد ہی پر عائد نہیں ہوتی !! 

معاشرتی لحاظ سے یہ سنجیدگی ہمارے انفاس پر گراں گزرتی ہے !! دیکھا جاۓ تو ہمارا اجتمائی رویہ کتنا غیر ذمہ دارآنہ ہے ان چھچھوری حرکتوں پر کتنے لوگ ویڈیو بنا رہے ہیں اس طرح کی  پوسٹ پر سمائلی ہارٹ وغیرہ کے ایمو بھی خوب آجاتے ہیں اور لائک و کمنٹ بھی ! نیز اس طرح کی حرکتوں کو عموما سنجیدہ طبقے خاطر میں بھی  نہیں لاتے  بلکہ اکثر کو اگنور کر دیا جاتا  بے؛  بے حس نسل  سے اور کس بات کی توقع کی جا سکتی  ہے کہ وہ تو اپنے کردہ ،ناکردہ سب ہی اعمال کو ہنس کر اور محض ہنس کر قبول کرتی ہے۔ آج میری نظر سے اس  ہاسٹل  کی بچی کی عزت  باختہ لاش کی پوسٹ کئی بار گزری تو سوچا  پہلے ہم کہتے تھے کہ  نجانے مردوں کے دیدوں میں کون سے عدسے فٹ ہوتے ہیں جو ہر مخالف جنس کو ایک ہی نظر سے بھنبھورتے ہیں لیکن نیت سیر نہیں ہوتی لیکن اب اس صنف نازک کو کیا کہیں جسے ایسی بے باکی پر حیا نہیں آتی ،آزادی کے نام پر  بیہودگی کرتے وقت یہ لڑکیاں مادر پدر آزاد کیوں ہو جاتی ہیں ؟  مغرب کی پروردہ اپنے سماجی اقدار و مذہبی تعلیمات کو کہاں دفنا آتی ہیں ؟ پھر ان بچیوں کی سر عام عزتیں لٹوانے سے  پہلے آدھے تیتر آدھے بٹیر والدین کا ضمیر کیوں  نہیں جاگتا !! مائیں کہاں سوئی پڑی رہتی ہیں !!

 ایسے بے خبر والدین کو تو خود کو خود ہی سرے عام پھانسی لگا لینی چاہیے اور اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو ایسی اولاد کو اپنی گندی سوچ اور کردار کے گٹر میں ہی ڈوب کے مر جانا چاہیے ۔



Comments

Popular posts from this blog

جو شخص صبح شام کے اذکار کرتا ہے،

ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻞ ﺷﺎﻧﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ: ﺍﺱ ﻃﺮﺡ کہ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﮮ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ: ﯾﺎ ﺭﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ.

گھریلو ٹوٹکے